April 1, 2015

لزبن جیسا کوئی نہیں


 یوں تو پیرس سے واپسی پر جیب اور عقل دونوں ٹھکانے لگ چکی تھیں لیکن وہ دل ہی کیا جو انسانوں والے کام کرنے پر 
مائل ہو جائے۔ لزبن میں میرا آخری ہفتہ تھا اور روز وکسVicks، اور آئیوڈیکس Iodex لگا لگا کر ٹانگیں چلنے کے قابل ہو گئی تھیں تو سوچا جب کا آیا ہوں پروفسیر صاحب نے کہا ہے کہ سِنترا Sintra دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے اور تو ان دنوں ہم خود بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے تو سوچا خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے نمونے دو۔ اور بس ایک دن گوگل صاحب سے معلومات لیں اور پہنچ گئے ریلوے اسٹیشن کہ ایک جھکڑ ہے مرے پاؤں میں۔
اسٹیشن پہنچ کر پتہ لگا کہ سنترا کے لیے ٹرین یہاں سے نہیں جاتی بلکہ اور اسٹیشن سے جاتی ہے۔ اللہ جانے وکس میں کیا ملا تھا جو رات میں اسی اسٹیشن کا نام پڑھتا رہا۔ اب وہاں سے میٹرو پر بیٹھا اور اگلے اسٹیشن پر پہنچ گیا۔ وہاں ٹکٹ لینے والوں کی لمبی قطار بنی تھی اور ٹکٹ مشین پر بھی غیر ملکی یوں ٹوٹے ہوئے تھے کہ جیسے آج سنترا کو آخری ٹرین جا رہی ہے جو کہ اس بات کی علامت تھی کہ اپنی باری دور است دور کیا آج کے دن تو ناممکن است۔

اتنی لمبی قطار دیکھ کر پہلے تو دل میں آیا کہ پیدل ہی سنترا چل دوں لیکن ابھی بھی چند ایک قدموں کے بعد گٹھنوں سے آہ نکلتی تھی لہذا وہ ارادہ منسوخ کرکے سامنے کھڑے گارڈ صاحب کو اپنا ٹرانسپورٹ کارڈ دکھا کر پوچھا کہ کیا میں اس پر سفر کر سکتا ہوں۔ اس پر وہ بولے اگر وہ نجومی ہوتے تو ضرور بتادیتے۔ میں بے اختیاری میں سر کھجانے لگا کہ یہ کیا معاملہ ہے تو انہوں نے ہمارے سر میں پائی جانے والی جوؤں کو کانوں پر رینگنے کے تکلف سے آزادی دلاتے ہوئے کہا کہ انکو کیا پتہ کہ اس میں کتنے پیسے ہیں ۔ میں نے سینہ تان کر کہا دس یورو۔ تو انہوں نے کہا دس یورو سے مرعوب ہوتے ہوئے کہا کہ اب کون روک سکتا ہے آپ کو۔

اصل میں لزبن میں بننے والا ٹرانسپورٹ کارڈ جو لزبن شہر میں ٹرام، میٹرو، فیری، لوکل ٹرین اور بس میں چلتا ہے درحقیقت تمام لزبن صوبے میں چلتا ہے اور آپ بے شک شہر سے باہر کسی پبلک ٹرانسپورٹ میں جائیں وہ سفر کے حساب سے پیسے کاٹ لے گا۔ جیسے اس آدھ گھنٹے کے ٹرین کے سفر کے اڑھائی یورو کاٹے۔ بس چلتے وقت اسکینر پر کارڈ لگائیں اور اترتے وقت لگائیں کوئی اضافی ٹکٹ خریدنے کی ضرورت نہیں۔

سنترا ایسے ہی ہے جیسے اسلام آباد کے بالکل ساتھ پہاڑی پر مری لیکن ایک تو یہاں برف نہیں پڑتی دوسرا وہ پاکستان کا مری نہیں بلکہ یورپ کا مری ہے باقی اور دوسرا یہ کہ وہاں چند سالوں بعد شہر کے آس پاس کے علاقے شہر کی کالونی نہیں بن جاتے بلکہ چھوٹے دیات، ٹاؤن باقی رہتے ہیں تو اگر آپ کی سوچ کے گھوڑوں کے گٹھننے ٹخنے ہماری طرح سوجے نہیں تو ان کو دوڑا کر انداذہ لگا لیں کہ وہ کیسا ہوگا۔

ایسے مصروف سیاحتی مقام پر جانے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ راستہ پوچھے بغیر ، نقشے کا تکلف کیے بنا ہی لوگوں کے پیچھے پیچھے چل پڑیں تو مشہور مقامات پر پہنچ جاتے ہیں۔ اپنی طرف سے تو میں کل رات گوگل سے تیاری کر کے آیا تھا لیکن پہلے دھکے کے بعد نہ گوگل پر ایمان رہا تھا نہ خود پر یقین لہذا لوگوں کا پیچھا کرتے کرتے چل پڑا۔ سب سے پہلے ٹاؤن ہال اور اس کا ٹاور آیا (Câmara Municipal ) اور دور نیچے ایک میوزیم اور ایک پارک سا نظر آیا لیکن میں انکو نظرانداز کرتا ہوا سیدھا سنترا نیشنل محل Sintra National Palace پہنچا وہاں تصاویر اتاریں اور اب پینا محل کی جانب چل پڑا۔ راستے میں سیاحتی دفتر نظر آیا تو اس مین گھس گیا لیکن وہاں پتہ چلا کہ نقشے پیسوں سے دے رہے ہیں میں نے اس خیال میں کہ شاید کچھ مفت مل جائے کتابچے اٹھا کر دیکھنے شروع کیے لیکن داراصل میری نظر بقیہ سیاحوں پر تھی کہ کہیں تو مفت مال بھی ہوگا۔اسی دوران ایک طرف رکھے ریک میں دو تین جوڑوں نے کچھ کاغذ اٹھائے اور لیکر باہر چل دیے تو میں بھی کھسکتا کھسکتا ادھر پہنچا بے نیازی سے تین چار نقشے اٹھائے اور اس قبل کوئی کچھ کہتا نقشہ میری جیب میں تھا اور میں دفتر سے باہر تھا۔

Câmara Municipal

دور دو سفید گنبد نیشنل پیلس کے ہیں

چوٹی پر مسلمانوں کے قلعہ کا دیدار

اسٹیشن سے سیاحتی مرکز تک





Sintra National Palace

سنترا قومی محل





سیاحتی مرکز

اب میری منزل پینا محل اور پارک Pena National Palace تھا۔یہ تقریباً آدھا کلو میٹر اونچی پہاڑی پر بنا ہے۔ آدھا کلو میٹر ویسے تو بچوں کا کھیل لگتا ہے لیکن کبھی آدھ کلو میٹر اونچی پہاڑی چڑھ کر دیکھیں۔ تاہم غم آدھ کلو میڑ اونچی پہاڑی چڑھنے کا نہیں تھا بلکہ یہ تھا کہ 20 یورو کی ٹکٹ بھی بھرنی پڑ گئی ۔ 20 یورو کا غم تب دوبالا ہو گیا جب پتہ لگا کہ ہم انجان راہوں میں مارے گئے کہ پینا پارک میں اور پینا محل کو باہر سے دیکھنے پر کوئی ٹکٹ نہ تھا بلکہ پارک مکمل مفت تھا اور محل کے اندر جانے پر ٹکٹ تھا  جب تک پتہ نہ لگا تب تک میں حیران ہوتا رہا کہ یہ ٹکٹ چیکر کہاں مر گیا اورویسے بھی محل کے اندر سے ہمیں کیا لینا دینا تھا کہ وہاں کونسی شہزادی ہمارا انتظار کر رہی تھی کہ ہم 20 یورو اس کی خاطر ضایع کرتے۔

پینا محل کی جانب



سنترا اور نواح




مور قلعہ

نیشنل محل



پینا محل کی پہلی جھلک

پینا پارک میں مسلمانوں کی بنائی ہوئی طاق


پینا محل



Pena National Palace












کھڑکی میں سے مور قلعہ نظر آ رہا ہے





اب چونکہ میں ٹکٹ بھر چکا تھا لہذا محل کو اندر سے دیکھا اور خوب دیکھا کہ ایک کی بجائے تین تین چکر لگائے لیکن سوائے ایک کھڑکی کے جہاں سے مورش قلعہ (موروں یعنی مسلمانوں کا قلعہ) The Castle of the Moors )(Portuguese: Castelo dos Mouros نظر آتا تھا کچھ خاص لگا وہ بھی اس لیے خاص لگا کہ ایک زمانے میں میری تصاویر کا ایک موضوع کھڑکی بھی تھا۔

وہاں سے نکلا اور منزل مورش قلعہ تھا۔ آدھا کلو میٹر نیچے اترا اور پھر آدھا کلو میٹر اوپر دوسری پہاڑی پر مورش قلعہ پہنچا۔ یہاں اندر جانے کی ٹکٹ تھی اور میں نے دل میں شکر ادا کیا کہ ٹکٹ حلال ہوا۔ قلعہ کی چار دیواری محفوظ تھی تاہم مسلمانوں کے وہاں سے جانے کے بعد ان کی تعمیرات کو تباہ کر دیا گیا تھا جو اب دوبارہ کھدائی کر کے بحال کیا جارہا تھا جس میں وہاں ملنے والی مسلمانوں کی قبریں بھی تھیں۔ ایک وہ تھے جنہوں تمام دنیا تسخیر کی اور نئی منزلوں پر ٹھکانہ بنایا تھا ایک ہم تھے جو ان کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے سے بھی قاصر تھے۔ ان کی تنہائی کے مقابلے مجھے اپنی تنہائی ہیچ لگی۔ لیکن مسافر کا کام رکنا نہیں بلکہ چلتے رہنا ہے کسی مقام کا کسی جگہ کا کسی جذبے کا ہو کر رہنا نہیں بلکہ ہر نئی منزل نئے راستے نئے سفر کو چکھنا ہے تو مورش قلعہ کا بوجھ یادوں کی گٹھڑی میں ڈالا اور منزل مونسیراتے محل Monserrate Palace (Portuguese: Palácio de Monserrate) تھا –

قلعہ کی جانب

راستے میں

قلعہ کا دروازہ

قلعہ کے اندرونی مناظر





قلعہ سے نیشنل محل



قلعہ سے پینا محل


قلعہ سے تیولی محل


وہاں ایک دھوبن چڑیا بھی تھی


واپسی کا سفر










راستے میں قواِنتا دے رےگالیریا Quinta da Regaleira پڑا تو لگے ہاتھوں وہ بھی دیکھ لیا۔ اگر آپ گوگل پر سنترا یا پرتگال ونڈرز تلاش کریں تو آپ کو ایک کنواں نما عمارت نظر آئے گی وہ یہاں ہی واقع ہے۔ راستے میں ہی ایک اور عمارت تیولی محل اور ہوٹل Hotel Tivoli Palacio de Seteais تھا ۔ وہ بھی قابل دید عمارت تھی۔

Quinta da Regaleira

کواِنتا دے رےگالیریا




Hotel Tivoli Palacio de Seteais

تیولی محل اور ہوٹل


جب چل چل کر تھک گیا اور مونسیراتے محل کے آثار بھی نظر نہیں آرہے تھے تو ایک دکان پر رکا اور وہاں پر لڑکی سے پوچھا کہ یہ کتنی دور ہے تو اس نے بمشکل 20 منٹ کے فاصلے پر۔اب اللہ جانے وہ کوئی سپر مین کی بھتیجی تھی یا کار کو پیدل سمجھتی تھی کہ آدھا گھنٹا ہو گیا ٹانگوں نے ہاتھ باندھ لیے لیکن مونسیراتے محل کا نام نشان نہ تھا۔ بس حوصلہ افزا بات یہ تھی کہ ہر دس پندرہ منٹ بعد کوئی نہ کوئی پیدل سیاح نظر آجاتا اور حوصلہ بڑھ جاتا لیکن ہر پانچ منٹ بعد گزرنے والی سیاحوں سے بھری بس ویگن ایسے گزرتی جیسے میری ٹانگوں اور حوصلے کو منہ چڑاتی جارہی ہو۔ بس شکر یہ ہوا کہ ہر موڑ پر ایک منظر قابل تصویر کشی مل جاتا جس سے دل بہلتا رہا اور آخر میں جیسے تیسے لٹکتے جھٹکتے مونسیراتے محل اور پارک میں پہنچ ہی گیا۔ 

مونسیراتے محل کے راستے میں









مونسیراتے پارک ایک نباتاتی باغ بھی تھا جس کو 2013 میں یورپ کا بہترین نباتاتی پارک قرار دیا گیا تھا اور وہ واقعی بہترین تھا کہ جہاں مجھے ایک ایک قدم اٹھانا دوبھر لگ رہا تھا میں نےتمام پارک گھوما اور تمام محل بھی دیکھاالبتہ واپسی پر شاید پہلی بار میں نے تھکاوٹ کی وجہ سے ایک یورو ضایع کیا اور بس میں بیٹھ کر سنترا نیشنل محل پہنچا اور وہاں چند تصاویر اتاریں اور واپس ٹرین پر بیٹھ کر لزبن آ گیا۔

مونسیراتے بناتاتی باغ اور محل میں











مونسیراتے محل

Monserrate Palace 







Palácio de Monserrate










سنترا اسٹیشن پر



واپسی پر تھکاوٹ میں میٹرو پر دو اسٹیشن پہلے ہی اتر گیا اور میں نے کہا کہ اب ایک ٹکٹ اور نہیں ضایع کی جاتی لہذا چلو پیدل۔ بس جیسے پہنچا دل ہی جانتا ہے اوپر سے اگلے دن اپنے پروفیسر کو بتایا کہ میں کل سنترا گیا تھا تو اس نے پوچھا وہاں کی پیسٹری کھائی بڑی مشہور ہے۔ میں نے سوچا آج کے بعد اس کو نہیں بتانا کہیں جانے کا کہ ہربار واپسی پر یہی پوچھتے ہیں وہاں کا وہ کھایا ۔ اب بھلا بندہ گھومنے جاتا ہے یا کھانے پینے اور کھا پی بھی لے لیکن کھانے پینے کے پیسے کیا یونورسٹی دے گی؟

دودن بعد میں نے ٹانگوں پر آئیوڈیکس لگا کر وہ پلستر نما چڑھایا جس کو باسکٹ بال اور والی بال کھلاڑی گھٹنوں پر پہنتے ہیں، کیمرہ گلے میں لٹکایا اور لنگڑاتے لنگڑاتے ایک بار پھر اسٹیشن پہنچ گیا۔ اب کی بار میری منزل کاش کائیش Cascais تھا جو سنترا کی طرح ہی لزبن کا ایک متصل علاقہ ہے۔

 کاش کائیش ایک ساحلی ٹاؤن ہے جو کہ لزبن شہر سے آدھا گھنٹے ٹرین کے سفر کے فاصلے پر موجود ہے۔ ٹرین سے ویسے ہی جھجک اتر چکی تھی لہذا اب کس کا ڈر تھا بس ایک بار پھر دنیا جہان کے سیاحوں سے بھری ٹرین تھی ایک اکیلا میں پاکستانی۔ اکیلے ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ آپ کی نسل کے کرتوتوں سے واقف نہیں ہوتے لہذا آپ کو بھی باقی سیاحوں کی طرح عزت مل جاتی ہے ورنہ پاکستانیوں کو تو پاکستان میں عزت نہیں ملتی اور جنکو ملتی ہے وہ پہلے ہی بیرونی پاسپورٹ حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔

کاشکائیش اسٹیشن پر اترا اور سمندر پر پہنچ کر پہلے مغرب کی طرف چلنا شروع کر دیا جہاں پتھریلا ساحل تھا اور جب مغرب کی طرف تقریباً پانچ کلو میٹر چل کر آخیر کنارے پہنچ گیا تو واپس کاشکائیش پہنچا وہاں سے بازار سےکچھ مقناطیس والی یادگار خریدی۔ اس سے قبل میں ہمیشہ انگریزی میں بات کرتا ہوں کہ کوئی پاکستانی اپنی پاکستانیت پر نہ اتر آئے لیکن اب یہ سبق سیکھا ہے کہ پاکستانی، بنگالی، ہندی سے اردو میں ہی بات کرو خواہ اس میں ان کی برداشت کرنی پڑے لیکن اس میں ایک آدھ یورو ضرور بچ جاتا ہے تو میں نے بنگالی کو دیکھ کر پوچھا " بندو کتنے کا دیا ہے یہ مقناطیس" اس کو وطن کی یاد آئی اور اس نے اساڑھے تین یورو کا مقناطیس اڑھائی یورو میں دے دیا۔

Cascais

آپ بھی کاش کائیش کے ساحلوں کا لطف لیں











































اب واپس مارچ شروع ہوا اور کاش کائیش کے بازار سے واپس ساحل پر آ کر مشرق کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ راستے میں کئی چھوٹے شہروں سے ہوتا کاش کائیش سے آٹھ کلو میٹر دور جہاں آگے ساحل پر جانے کا راستہ نہ تھا میں نے ٹرین پکڑی اور واپس لزبن آ گیا۔ جب گھر پہنچا تو پہلا خیال یہ آیا کہ واقعی لزبن جیسا خوبصورت شہر کوئی ہو جب مزید تفصیل دیکھی تو پتہ چلا کہ جہاں سے میں واپس آ گیا اس سے آگے بھی ساحل تھا لیکن راستہ بدل کر آنا پڑتا ہے تو میں نے گھٹنے سے پلستر اتارتے سوچا کہ عمر باقی صحبت پا باقی۔